پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دن دہاڑے قتل کر دیے جانے والے سابق وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کی آج پہلی برسی ہے۔
اس سلسلے میں اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہباز بھٹی کے قتل کو ایک سال گزر جانے کے باوجود ان کے قاتل نہ پکڑے جانے پر حکومت پاکستان پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں آباد مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور تذلیل کی جو منظم مہم چل رہی ہے، حکومت اسے روکنے میں ناکام رہی ہے۔
شہباز بھٹی وفاقی کابینہ کے واحد مسیحی رکن تھے اور پاکستان کے ان چند سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے جو مذہبی تقدس سے متعلق متنازع قوانین میں اصلاح کی بات کرتے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاقائی رہنما سیم ظریفی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو شہباز بھٹی کی اس میراث کا احترام کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں پر حملوں اور تذلیل کی منظم مہم کو چیلنج کرنا چاہیئے۔
تنظیم نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ شہباز بھٹی کی موت کے بعد سے اقلیتی امور کی وزارت کا قلمدان کسی دوسرے کو نہیں سونپا گیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس اہم موقع پر جب کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد جاری بھی ہے اس وزارت کا خالی رہنا حکومت کی بے عملی کا خوفناک مظہر ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ شہباز بھٹی کے قتل کو ایک سال بیت گیا لیکن لیکن اب تک ان کے قاتل آزاد ہیں اور ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ انہیں جلد ہی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی شدت پسند اور جنگجو تنظیموں کے اتحاد اس سال کھلے عام شیعہ اور بعض صوفی مسلمانوں کے علاوہ احمدیوں اور عیسائیوں کو قتل کرنے کی کال دے رہے ہیں۔ تنظیم نے حکومت سے شہریوں کو بلاتفریق تحفظ فراہم کرنے اور متنازع قوانین میں اصلاح کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment